Jun 21, 2021

"پیارے وزیر اعظم "

تو سنو، ابن آدم !!

Picture by Felipe Vallin

تمہاری  سوچ کا دائرہ،  

بنت حوا کے کپڑوں سے چھوٹا ہے 

 

سات سالہ کا ڈھکا چھپا بدن، 

تمہارا آپ برہنہ کرتا ہے 

بارہ سالہ کی معصوم ہنسی،

تمہارے اندر کا جانور جگاتی ہے

تین سالہ کا پھولوں والا فراک،

تمہاری غلاظت سے مرجھا جاتا ہے  


وہ بس میں دھکّے کھاتی عورت،

تمہاری انگلیوں سے ڈرتی ہے 

کھلے بازار میں خود کو چھپاتی،

ہر مردانہ جنبش پر نظر رکھتی ہے 

میرا پردہ میرا محافظ نہیں، کہ 

تمہاری نظروں کی چبھن آر پار جاتی ہے  


جب زندہ لاشوں سے دل بھر جائے،

تمہاری حوس، کفن کی بھی پامالی کرتی ہے 

ابن آدم،

زمین بھی تمہارے گناہوں سے گھن کھاتی ہے


عقل و فہم کو پاؤں کی جوتی سمجھنے والے،

تیری نظر، میرے چہرے کے نیچے کیوں جاتی ہے؟ 


#بانوسازی 



Mar 17, 2021

Jul 10, 2020

"شوہرکو چھوڑ دو!"

Originally published here NayaDaur Urdu


پچھلے چوبیس گھنٹے سے سوشل میڈیا پر ایک خبر زور و شور سے گردش کر رہی ہے جس میں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک خود ساختہ صحافی، ٹی وی پروڈیوسر نے مبینہ طور پر اپنی بیوی کا قتل کردیا ہے. 

یہ قتل ٢٩ جون کو ہوا تھا اور مقتولہ کی بہن کے مطابق، ان کی بہن ظالمانہ گھریلو تشدد کا شکار تھی. یوں تو قتل کو خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ابتدائی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے معلوم پڑتا ہے کہ موت گلا دبانے سے ہوئی تھی.

ظلم، تشدد، قتل، خودکشی، یہ کچھ بھی مملکت خداداد میں نیا نہیں ہے. 

سنہ ٢٠١٨ میں ہونے والی Thompson Reuters سروے کے مطابق پاکستان عورتوں کے لئے دنیا کا چھٹا خطرناک ملک ہے. اس خطرے کی بنیادی وجہ عزت کے نام پہ قتل، ریپ، اور گھریلو تشدد ہے. 

ایسے تمام واقعات جب سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آتے ہیں توعمومی طور پر لوگ اپنی دانست میں، شدید جدّت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لڑکی کو شوہر کو چھوڑ دینا چاہئے تھا. 

کیا ہمارے معاشرے میں شوہر کو چھوڑنا اتنا آسان ہے؟
نہیں !

ہمارے معاشرے میں لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اس کی بنیادی تربیت اس طرز پہ کی جاتی ہے کہ اس کو کل کو 'دوسرے'  گھر جانا ہے. ایسی معاشرتی روایات اور اصولوں پہ پروان چڑھنے والی بچیوں یا خواتین سے یہ امید کرنا کہ انہوں نے شوہر کے غلط روّیے کے باعث 'گھر کیوں نہیں چھوڑ دیا؟' انتہائی بیوقوفانہ امید ہے.

بچیاں بچے، کم عمری سے ہی اپنے آس پاس کے ماحول کو اپنانے لگتے ہیں جہاں وہ عورت کو چولہے چکّی میں پستا، باپ سے پٹتا، گھر والوں سے کوسنے سنتے، بزرگوں سے صبر کی تلقین اور ہر طرح کی قربانی کا واعظ سنتے ہیں.

خصوصی طور پی لڑکیوں کو شروع سے جھکاؤ سکھایا جاتا ہے. بھائی چھوٹا بھی ہو تو رعب دبدبہ بڑوں والا ہوگا. باپ کا غصہ ٹھنڈے پانی کی طرح پی جانے کا حکم ہوگا کیوںکہ وہ تمہاری دال روٹی کا مالک ہے. حد تو حد، اگر کوئی اولاد اپنے ساتھ ہونے والی کسی قسم کی زیادتی، بشمول جنسی، کی شکایات کردے تو اس کو خاموشی کا درس سکھایا جاتا ہے.

ہم نے تو اپنے بچوں کو بھی وہ محفوظ گھر نہیں دیا جہاں انکی چیخ سنی جا سکے، جہاں انہیں رشتوں پر اعتبار ہو کہ وہ ان کے حقوق کا استحصال نہیں کریں گے. 

ایسے ماحول میں ہم ایسا کیسے سوچ لیں کے صدیوں کی روایات اور بوسیدہ اقدار کو ایک کمزور عورت للکارنے کی جرّت کرے گی.

لڑکیوں کو یہ تو سکھایا جاتا ہے کہ انہوں نے دوسرے گھر جانا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ اس گھر سے واپس بھی آسکتی ہے. ہم انہیں ان کی ذات کی نفی سکھا کر ، شادی قائم رکھنے کے بہترین سماجی ٹوٹکے بتاتے ہیں. حالانکہ بتانا یہ چاہئے کہ یہ نکاح نامہ ہے، تمہاری موت کا پروانہ نہیں ہے.

طلاق، جو کہ ایک مذہبی اور معاشرتی حق ہے، اس کو کالا دھبّہ بنا کر اپنے والدین ہونے کا بھرپور ثبوت دیتے ہیں. اس تربیتی طرز کے علاوہ بھی سینکڑوں ایسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر لڑکیاں گھر واپسی کا راستہ نہیں چنتی ہیں، بلکہ زندہ یا مردہ بیاہتا قبر میں دفن ہوجاتی ہیں. 

پہلی اور سب سے اہم وجہ ہے مضبوط تعلیم!
گھر میں اگر ٤ بچے ہوں تو سب سے زیادہ تعلیم کا دھیان لڑکے کی جانب جاتا ہے. اسے مہنگے سکول میں ڈالا جاتا ہے، پروفیشنل ڈگری دلوائی جاتی ہے، کیوںکہ اس نے بوڑھے ما باپ کا سہارا بننا ہوتا ہے. دوسری جانب لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ BA پاس کروا کر شادی کے پلو میں بندہ دیا جاتا ہے کہ تم اب اپنے شوہر کی ذمے داری ہو. 

جب لڑکی نے دنیا داری تو سیکھی ہو لیکن دنیا نہ دیکھی ہو تو اس کے اندر خود اعتمادی کا شدید فقدان ہوتا ہے اور یوں وہ مکمل طور پر شوہر کے رحم و کرم پر ہوتی ہے. ماں باپ اپنی بیٹیوں کو تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم کرکے چار ثواب زیادہ نہیں کمائیں گے. 

اب آپ کہ ذہن میں آئے گا کہ پھر پڑھی لکھی عورتیں کیوں پرتشدد زندگی سہتی ہیں؟ اس کا جواب ہیں آپ اور آپ کا بنایا ہوا کھوکھلا سماج!

سال ٢٠٢٠ ہے، لیکن پاکستانی ڈراموں میں ابھی بھی طلاق ایک انتہائی ممنوع فعل ہے. حالیہ ہی ایک ڈرامے میں دکھایا جارہا ہے کیسے ایک لڑکے کی ماں اپنے پڑوس کی لڑکی پر پہلے الزام لگاتی ہے کہ وہ اس کے معصوم بیٹے کو پھنسا رہی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتی ہے کہ "میرے بیٹے کے لئے طلاق یافتہ ہی رہ گئی ہے؟"

جب لاکھوں لوگ پرائم ٹائم میں بیٹھ کر یہ ڈرامہ دیکھیں گے تو ان کے ذہن طلاق یافتہ عورت ایک گالی کی صورت ابھرے گی. 

آج بھی برصغیر میں شادی بیاہ، بچے کی پیدائش جیسے خوشی کے موقعے پر طلاق شدہ اور بانجھ عورتوں کو دلہن سے فاصلے پر رکھا جاتا ہے کہ کہیں اس کا 'منحوس' سایا نو بیاہتا پر نہ پڑ جائے. سننے میں یہ باتیں زمانہ قدیم کی لگتی ہیں لیکن یہ ہیں اسی جدید اکیسویں صدی کی باتیں.

سماجی بے دخلی یا در بدری ایک بہت بڑی وجہ ہے جو عورتوں کو بے وفا،ظالم،یا فحش شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبورکردیتا ہے. ہمارے سماج میں مرد کتنا ہی ناکارہ کیوں نہ ہو، اسکا نام عورت کے ساتھ ہونا چاہئے. 

اگر کوئی عورت طلاق یا شوہر سے علیحدگی سوچ بھی لیتی ہے تو اس کے دل میں طرح طرح کے خوف ڈالے جاتے ہیں. جیسے.....

-- بھابھی کے ساتھ رہو گی؟
-- بوڑھے ماں باپ خاندان میں کیا منہ دکھائیں گے؟
-- چھوٹی بہنوں کا رشتہ کیسے ہوگا؟
-- بچے اکیلے پال لو گی؟
-- کل کو بیٹی کے سسرال والوں سے کیا کہو گی؟
-- اکیلی عورت کی کوئی عزت نہیں ہوتی. سوچ لو؟

قصّہ مختصر، طلاق کو تیسری عالمی جنگ کا درجہ دے دیا جائے گا. اس بیچاری عورت کو لگے گا اگر اس نے طلاق لی یا دی تو حضرت اسرافیل صور پھونک دیں گے.

اب آپ ہی بتایئں، کون عورت اپنے سر یہ گناہ لے گی؟

اکثر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ پسند کی شادی کا نتیجہ ہمیشہ برا ہوتا ہے جیسا لاہور کے صحافی کی بیوی کے ساتھ ہوا.

اصل میں یہ تمام باتیں ایک سوچی سمجھی، سماجی منصوبہ بندی ہے جس کا بنیادی مقصد عورت کو بندی نہیں بلکہ باندی بنانا مقصد ہے.اس منصوبہ بندی کا سہرا یوں تو پدر شاہی کو جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں عورت کا کردار بھی ہے جیسے ماں، ساس، نند، بہنیں،خالہ، پھوپھی، جیٹھانی، دیورانی، بھابھی، اور محللے والیاں بھی......یہ وہ زنانہ رشتے ہیں جن میں مردوں سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے تو وہ نظام میں رہ کر نظام کا ساتھ دیتی ہیں.

ایسی کوئی تحقیق نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ شادی اگر والدین کی مرضی سے ہوگی تو کامیاب ہوگی. کامیابی کا انحصار آپ کی پسند پر نہیں ہے. 
شادی والدین کی پسند سے ہو یا اپنی پسند سے، واپسی کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہونا چاہئے اور کھلے دل سے ہونا چاہئے.

پاکستان میں سماجی فقدان کے ساتھ ہی حکومتی منصوبہ بندی بھی ناکام ہے. ملک میں تقریبآ ایک تہائی کیسز گھریلو تشدد سے جڑے ہوتے ہیں لیکن بمشکل صرف ١-٢.٥% ہی قانونی انجام کو پہنچتے ہیں. ہمارے ملک میں عورتوں کے لئے پناہ گاہوں کی کمی ہے اور جو ہیں وہاں وہ محفوظ نہیں ہیں.

اس کے ساتھ ہی قانونی چارہ جوئی ایک انتہائی مشکل کام ہے. ہمارے معاشرے میں تھانہ کچہری کرنا شرمندگی کا باعث بنتا ہے بھلے قصور سامنے والے کا ہو. ہم بیٹی پر چار لات گھونسیں برداشت کرلیں گے لیکن تھانے جا کر رپورٹ نہیں کریں گے. جو رپورٹ ہو بھی گئی، تو ایک بار پھر قانون آپ کو تاریخوں کے لئے دوڑائے گا.

مضبوط قانونی نظام اور سماجی و اخلاقی حمایت  کی کمی ہماری عورتوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ دنیا چھوڑ دیتی ہیں لیکن 'شوہر کا گھر' نہیں چھوڑتی ہیں.  












Jun 21, 2020

آخری خط -- The Last Letter

23-May-2020
1:15am


Dearest Matter of my Heart,
                                             I wish today, tonight I could have hugged you and tell you how much you mean to me. How much my little heart is filled with love for you. How much I look forward to seeing your face, and to be held by you at the airport. Above all, how ardent I am for you to become reality and drop the distance between us. 

Maybe, I am running how on emotions given what a painful and tragic day it was for both of us. Yet, the hardest for those who lost their loved ones in that fateful plane crash. You and I both are scheduled to travel sometime soon and that was the first thought that crossed my mind. 

During all the chaos, shown on the news, someone mentioned that the plane was just 1 minute away from the landing. Just one minute. Sixty seconds!

The world of those people and their families went upside down by one minute.

Life is so uncertain. So short. Uncontrollable and shocking. Slipping away from our hands without us paying attention.........and look at us! 
Wasting time, fighting for things which may mean nothing at the time of death or running after what is not meant for us. You and I often talk about our retirements. I want a life away in mountains, cooking from homegrown vegetables, baking fresh loaves of bread, spending my days in teaching children, and calling it a night after reading and writing to the content of my heart. 

You know, if all this comes true, my house will have a red color roof. 

I do not know our future or your intentions, but I know that everything can finish in one minute. Hence, I want to ask you, if everything goes well between us and if you wish, would you like to be with me when I turn 50 or 60 or even 70? Will you be willing to help me growing vegetables in the backyard? Would you like to read me your favorite poetry while we take a stroll? Will you watch with me the movies of my choice?

Would you like to be there?









Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way. 



Jun 20, 2020

نواں خط -- Ninth Letter

19-May-2020
11:45pm

میرے ہمسر،میرے دلبرم،
                                ابھی تک تم کو میرا ایک بھی خط نہیں پہنچ سکا ہے. اب تو مجھے بھی یاد نہیں میں نے کیا لکھا تھا اور کیوں لکھا تھا. خیر میری یاداشت مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ جس کہ لئے لکھے ہان، وہ کب پڑھےگا.
آج بہت دنوں کے بعد خط لکھنے بیٹھی ہوں. میں وہ سب کہہ نہیں پاتی جو دن بھر سوچتی ہوں سو لکھنے میں ہی عافیت ہے.

کبھی کبھی لگتا ہے اپنا آپ، اپنی محبّت بیان کرنا بلکل بھی آسان نہیں ہے. کاش، یہ کام میرا دل یا میری آنکھیں کر دیتیں. یقین نہیں آتا، بالاخر تم نے مجھے دیکھ ہی لیا باتیں کرتے، چٹر پٹر...... ایسی کوئی بچوں والی خوشی ہو رہی ہے جیسے کلاس میں فرسٹ آگئی ہوں!

جانتے ہو، مجھے لگتا تھا کہ  مجھے پھر سے عشق والی محبّت نہیں ہو سکتی تھی.  پھر خدا نے کہا پکچر ابھی باقی ہے دوست!
ویسے دیکھا جائے تو تم میں کچھ خاص نہیں اور نہ ہی مختلف لیکن پھر بھی تمہاری بنیادی شخصیت میں وہ سب کچھ ہے جو ایک ساتھ چلنے والے میں ہونا چاہئے. سب سے اچھی بات، تم سننا، سمجھنا، اور سیکھنا چاہتے ہو. مجھے چاہتے ضرور ہو لیکن ساتھ میں میری ذات کے دائرے بھی گھومنا چاہتے ہو. یا شاید یہ سب میرا وہم ہو.

اس روز، جب میں تم سے الگ ہونے کا سوچا تو وہ میرا خوف تھا. مجھے کسی سے امیدیں لگانا پسند نہیں اور ایسا ہونے لگے تو میں دو چھوڑ چار قدم پیچھے چلی جاتی ہوں. مجھے یہ امید، اظہار، پیار اپنے اندر نہیں پالنا. میں وہ انسان ہوں جو ایک بار محبّت کے کعبے میں داخل ہوگئی تو طواف کرتے کرتے خود کی نفی کردے گی......لیکن جس روز دائرہ ختم، اس دن کیا ہوگا؟

تم مجھے دائرے میں تو لے آئے ہو لیکن میری ذات کی نفی نہیں ہونے دیتے. تم مجھے، مجھ سے آگاہ کر رہے ہو. میں نے ان پانچ دنوں میں یہ سیکھا کہ مجھے تم سے عشق والی محبّت ہے لیکن پاگل پن نہیں ہے. شاید اس لئے کہ تم کبھی کچھ نہ کہتے ہو، نہ مانگتے ہو. میں جیسی ہوں تمہاری ہوں.

تم بہت عجیب ہو لیکن اتنے قریب ہو کہ اب کچھ ہو نہیں سکتا!

میں دل کی غلام ہوں، اور میرا دل محبّت کی مریدی میں ہے. تم جبکہ دماغ کی بساط پہ چلتے ہو. شاید یہی وجہ تھی، اس دن تم نے مجھے روکا نہیں کیوںکہ دماغ نے کہا ہوگا دل کو وقت دو.....تھوڑا رک کر دیکھو..........اور تم رک گئے لیکن روکا نہیں!

میں وعدہ نہیں کرتی کے ہمیشہ کے لئے ہوں کیوںکہ اس کا دار و مدار تم پر ہے. بس یہ امید کرتی ہوں کہ ہمارے بیچ کبھی اتنا تکلیف دہ احساس اور فاصلہ نہ آئے.

                                                                  تمہاری،
                                                                        جھانسی کی رانی!





Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way. 

Jun 19, 2020

آٹھواں خط -- Eighth Letter

02-Apr-2020
12:45am 


Dear Not-So-Phantom,
                                    Thank you for suggesting that film. It was indeed, worth watching more than once. I can't believe, I missed it. Gotta be my crazy life, for sure. 

Alma was not in love. She was more of territorial, I believe. She wanted to own Woodcock without his own free will. What love is love, if it has no free will for the lover. When in love, you let the love be.


Anyway, it was a beautiful movie with a bitter script.


The days when I feel distant from you, are the days when I am certainly lost. So lost that I could not even decide if my tea tasted good enough. The distance had nothing to do with you, or us. There are times in my life when I lose my balance without a reason. I lose my sleep, my sanity, my focus, and everything. I never understood why but I know in those something bad was happening, or about to happen. Just something that I did not know in time.


This time, I learnt that I detest the distance between us.

The distance where I could not bring myself to kiss you before goodnight. I absolutely hated myself for this. Although, I know that you slept like a baby with or without my kiss.

It is just my own way to be there, even when we are thousands of mile apart!


I love the silence of the nights but they are equally scary to me. There is no daylight to put everything out for the naked eye. I am writing this letter from the small garden that we have at my place, while everyone else has fallen asleep.


This whole lockdown has given my city a feeling of graveyard like. No horns, no street lights, no cars, no random neighborhood noise, nothing. Just pin drop silence. 

All this makes my nights far more dreadful than I ever imagined. I wish you were here so I could feel the warmth of life next to me. 

The whole world is going through horrible times but I have someone so dear to hold on to.

My hope to meet you someday, somewhere makes me see the light at the end of the tunnel. At the back of my mind, I have my fears peeking through but for now, I want to bask in this hope. 

            Tumhari,

                        Munatzir!







Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way. 

Jun 18, 2020

ساتواں خط -- Seventh Letter

28-Mar-2020
1:15am


ستلج کے منافقاں،
                    چناب کے عاشقاں بن جاؤ!
جانتے ہو جب تم صرف اپنی باتیں کرتے ہو تب دل کرتا ہے اڑ کر تم تک پہنچ جاؤں. بس پھر تمھیں سنتی رہوں اور تم پر نقش گندھتی رہوں.

لوگوں کو دن یا ہفتے گننے ہوتے ہیں لیکن ہمیں اپنی پہلی ملاقات کے لئے مہینوں یا شاید سال کا انتظار کرنا پڑے.تمھیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ تم مجھے اچھے نہیں لگو گے؟ آج تک جو اچھے بلکہ بہت اچھے لگے ہو، وہ دیکھ کر تو نہیں لگے. 26 فروری کو میں نے کہا تھا میں تمھیں خط لکھ ہی نہ دوں........اور آج دیکھو یہ میرا تم کو ساتواں خط ہے. 

کہہ نہیں سکتی محبّت ہوگئی ہے لیکن کچھ اس سے ملتا جلتا ہے. میں جب رات کے آخری پہر میں باہرجا کر رات کا سناٹا سنتی ہوں، اور ٹھنڈی ہوا میں کھڑے ہو کر تم کو سوچتی ہوں تب لگتا ہے تم نے اپنی شال میرے کاندھے پی رکھ دی ہو. 
کبھی مسجد میں فجر سنی ہے؟

تم اس وقت کے سناٹے کا سکون ہو!

عجیب کشش ہے تمہاری طبیعت میں. ایک ہی وقت میں خود سے اتنے مطمئن ہوتے ہو اور دوسرے ہی لمحے انجان کا خوف ہوتا ہے. سوچتی ہوں، تمھیں مجھ میں کیا اچھا لگا؟ تم میں بلا کا ٹھہراؤ ہے، جنگل جیسی گہری خاموشی ہے تمہارے لہجے میں.

ایک میں ہوں، شور مچاتی بارش سی.

رات کے دو بج رہے ہیں اور میں مدھم روشنی میں لکھ رہی ہوں ورنہ کوئی جاگ نہ جاۓ اور پوچھے کیوں جاگ رہی ہو؟ کیا کہوں گی .....یہ کہ میری نیند ساڑھے چار ہزار کلومیٹر سو گئی ہے؟

کسے معلوم تھا میرے دل میں ابھی بھی عشق کی رمق باقی ہے. زندگی کی طرف لوٹنے کا راستہ مل گیا ہے. راستے میں رک کر تمہارے ساتھ سردی کی دھوپ میں بیٹھنا ہے. تم سے باتیں کرنی ہے. بارش میں بھیگنا ہے. پہاڑ چڑھ کر دور کہیں برف دیکھنی ہے. تمہاری جھوٹی چائے پینی ہے. بابا فرید کے مزار پہ تمہارا دیدار کرنا ہے...........ایک بار کرنا ہے بس یہ سب!

کم از کم ایک بار تاکہ مرتے وقت کہہ سکوں، زندگی اتنی بھی رائیگاں نہیں گزری.
          تم سے دور،
             تمہارے پاس،
                         تمہاری.









Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way. 

Jun 17, 2020

چھٹا خط -- Sixth Letter

24-Mar-2020
1:00 am

اے دلنشیں خواب،
                         اگر تم خواب نہیں تو پھر کیا ہو؟ روز یہی سوچ کر سوتی ہوں کہ اٹھوں گی تو سب ختم ہو چکا ہوگا.....جیسے کوئی اچھا خواب. جیسے تم.

کیا معلوم کل دنیا کہاں ہوگی. ہم تم کہاں ہوں گے!
نومبر تک حالات کی کوئی خبر نہیں. سچ تو یہ ہے کہ مجھے مارچ بھی بھاری لگ رہا ہے. نہ جانے کیوں وقت نے اپنے پر کاٹ دئیے ہیں. میں دعا کروں گی، ہم اچھے وقتوں میں ملیں. تمھیں کوئی خط پڑھ کر سناؤں، یا کوئی غزل گاؤں. اگر تمھیں کبھی مجھے یونہی خوش کرنا ہو تو کیا کرو گے؟

میرا ماننا ہے خدا زندگی میں ہر انسان سے کوئی نہ کوئی کہانی جوڑ رکھتا ہے. کوئی ہمیں محبّت کا درس دیتا ہے، تو کوئی ہمیں لڑنا سکھا  دیتا ہے. تم معلوم نہیں کیا مقصد لے کر آئے ہو. شاید یہ بتانے کہ میرا دل ابھی بھی دھڑکتا ہے، گال سرخ ہوجاتے ہیں جب تم میرے چاؤ اٹھاتے ہو.

تم جو بھی ہو، بہت اچھے ہو!

الله جانے یہ خطوط تمھیں کب ملیں گے. میں نے سوچ لیا ہے، میں لکھتی رہوں گی اور تمہارے لئے جمع کرتی جاؤں گی. ایک ساتھ بہت سارے خط پڑھ لینا. 
ٹھیک ؟

لوگوں کو کھونے کا خوف ہوتا ہے. مجھے تمھیں پانے کا خوف ہے. تم سمندر کی مانند ہو. تم اپنی جگہ سے نہیں ہلو گے لیکن میں جھیل، بلکہ دریا جیسی ہوں. آہستہ آہستہ تمہاری طرف بڑھ رہی ہوں اور پھر ایک دن تم میں شامل ہوجاؤں گی. 

سمندر کو شاید کوئی فرق نہ پڑے لیکن دریا گم جاۓ گا.

سنو، مجھے کبھی لال پھول مت دینا. گلابی، سفید، یا پھر کوئی بھی اور کھلتا رنگ. پوچھو کیوں؟ کیوںکہ جب ہم دونوں روایتی نہیں تو پھول کیوں ہو.

مجھے یہ خط یہیں ختم کرنا ہوگا. 
ایک دن تمہارے چہرے پہ اپنی انگلیوں سے تمہارا ہی چہرہ تراشوں گی.

                                                   تب تک اور جب تک تم چاہو،
                                                                                       تمہاری.
   




Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way. 

Jun 16, 2020

پانچواں خط -- Fifth Letter

17-Mar-2020
11:30pm
جان من،
            کیسے ہو؟ کبھی کبھی دل تم سے اتنا مطمئن ہوتا ہے کہ تم جان ہی ہو اور کبھی اتنا خالی جیسے تم ایک خواب ہو اور میں جاگ رہی ہوں. ویسے تو میں تمھیں خط لکھنے تب ہی بیٹھتی ہوں جب دنیا کے جھمیلے ختم ہو چکے ہوتے ہیں. آج لیکن زیادہ جھمیلے تھے، پھر بھی ضروری ہے.

تم ہر دو دن بعد مجھے یہ کیوں جتاتے ہو کہ تم نے کبھی شادی نہیں کرنی ہے. مجھے بھی گھونگھٹ کاڑھنے کا شوق نہیں ہے. وہ الگ بات ہے اگر تم سے دل ملنے لگے. میں نے اپنی زندگی کے سارے خواب ایک عشق میں دیکھ لئے تھے اورپھر ان ہی خوابوں کو سمیٹ کر دفنا دیا.................اور آپ جناب کو لگتا ہے میں آپ کے ساتھ آپ کی اجازت کے بغیر خواب دیکھوں گی؟ 

ہمارا رشتہ تو ویسے بھی ابھی بھرم، وہم، اور فریب جیسا ہے. فاصلہ ہی اتنا ہے!

میں بہت مختلف تو نہیں لیکن میرے خدا نے مجھے اکیلے جینے کا ہنر سکھا دیا ہے. تم اکثر جب اپنی انسیت کا اظہار کرتے ہو تو دل کہتا ہے یقین کرلو لیکن دماغ کا حساب کتاب ختم نہیں ہوتا ہے.

میرے تمہارے، ہمارے بہت  چھوٹے چھوٹے خواب ہیں. 
تمھیں سردی کی دھوپ میں، میری گود چاہئے اور مجھے ستاروں کے سائے میں تمہارا شانہ............ساتھ ساتھ چلتے ہیں، جہاں تک ہو.....ورنہ تو ہم دونوں اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں.

                                   تمہاری،
                                          جب تک تم چاہو! 





Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way. 

May 14, 2020

The Burden of a Heartbreak


I was 8 or 9 years old when my mother's best friend was visiting us from a different city. Since she was visiting us after some time, my mother decided to give them gifts before they leave which included my new, untouched dress to her friend’s daughter.

It is obvious that my mother managed to source me another new dress the very next day, but it couldn’t make me as happy as expected. This memory is so vivid as if happened yesterday.

You know, why?

Because this was the first time I experienced a heartbreak through a loss of something I loved.
I was unable to enjoy my new dress despite as a child, I loved new clothes.

A heartbreak disables the senses to feel the fullness of emotion. Any emotion. Be it your happiness, sadness, or even anger. Your body refuses to experience the momentary pinnacle of that feeling, leaving you indifferent towards the severity of that event.

When my mother pestered me to let her give away that dress, I remember crying and putting up a fight because I had energy in me.  

Standing today, in front of the mirror, in my mid-30s, if you ask me, I possess the same energy to fight back after a heartbreak. My answer will be a straight no!

We all have heard that life is not a bed of roses, but that’s a half-cooked piece of information. They forgot to tell us the type of thorns we will have to face and how long they going to hurt. Finding all of this on our own can not only be exhausting but leave some of us with emptiness. In my case, it is numbness.

Some of us start fighting our battles from early childhood such as taking the burden of handling younger siblings or competing with our cousins to secure better marks in our studies. Many of us went through organized bullying at school for our looks or with our extended families for different socio-economic reasons.

All in all, these are the fights that we start fighting internally while externally we find coping mechanisms. It can be in the shape of a company of friends, getting lost in books, or just picking a useless fight with everyone at home. This mechanism does not last very long because it does not heal us.



We lose a little bit of us as we grow up and start getting drained. It is not necessary that every time we must give back to the world, to the people around us. This is something we all need to learn early in life that giving away too many emotions can leave you empty and callous.

This whole process includes several heartbreaks, but we were young. We picked up our pieces and became whole again. But not for very long!

Over the years, our emotional well being gets compromised on our way to be a little more loved. Instead, most of us got a little more hurt. As much as hope and love is what keeps the world going, we cannot deny the strength we invest to keep it going.

Every time I have loved and lost, I realized how stronger my heart became. So strong that now it is indifferent to the pain of loss. Life has made us struggled and fought so much already that moving forward, I want one less battle to fight.

We owe this to our broken heart and tired soul!




#Banosaazi

May 11, 2020

تئیس ہزار کا دوپٹہ، تین ٹکے کی غربت

 Originally published here HumSub

چند روز پہلے، سوشل میڈیا پر ایک ٹوئیٹ نے کافی شور مچا رکھا تھا جس میں درخت کی شاخ پر دو دوپٹے لہرا رہے تھے. عمومی طور پر شاخ پر الّو بیٹھتا ہے لیکن یہاں الّو بنانے والے دوپٹے تھے.

  
اس ٹوئیٹ کو لکھنے والے خود بھی ایک بہترین فوٹوگرافر ہیں اور انہوں نے نہ صرف دوپٹے کی قیمت پر ہم غریبوں کا دھیان کروایا بلکہ یہ بھی بتلایا کہ یہ کس قسم کی تصاویر ہیں. مجھے لگتا ہے اوسط درجے سے نیچے کی ہونگی کیوںکہ الّو کی آرامگاہ کو آپ نے ململ کے دوپٹے کی آماجگاہ بنا دیا. 

خیر، بندر کیا جانے ادرک کا سواد!

ہم ٹھہرے مڈل کلاس اور ہمارے پاس اس دور میں اگر اضافی ٢٠ ہزار آ بھی جاتے تو ہم اسے درخت پر لٹکانے کے بجاۓ کسی غریب کا راشن ڈلوا دیتے، کرایہ دے دیتے، بل یا فیس بھروا دیتے. 

پہلے پہل ہمیں لگا کہ کون اس قسم کے واہیات مہنگے دوپٹے خریدے گا جن میں نہ تو سونے کے تار کا کام ہے، نہ فیروزے یاقوت کا جڑاؤ ! جب آس پاس دیکھا تو پتہ چلا پاکستانی قوم جوش و خروش سے عید منانے کا ارادہ رکھتی ہے اور کیوںکہ موسم گرما ہے تو ایسے جا بجا ڈیزائنر ہیں جو ململ اور سوتی کی قمیضیں ہزاروں میں بچ رہے ہیں اور خواتین لہک لہک کر خرید بھی رہی ہیں.

غلطی سے ایسی ہی ایک خاتون کو ہم نے عادت سے مجبور ہو کر ٹوک دیا کہ دور خراب ہے، وبا پھیلی ہوئی ہے، لوگوں کے پاس اگلے وقت کا کھانا نہیں ہے، تو وہ کیوں ١٥ ہزار کا جوڑا لے رہی ہیں؟ جواب آیا انہوں نے اپنے حصّے کی زکوة اور فلاحی کام انجام دے لئے ہیں.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف اپنے حصّے کا فلاحی کام کردینا کافی ہے؟ کیا اصراف کی کوئی پوچھ نہیں ہے؟ کیا ہم ایک سال عید پر بنا نئے جوڑے کے نہیں رہ سکتے؟

دسمبر ٢٠١٩ میں،ماہراقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پاکستان جون ٢٠٢٠ تک غربت کی چالیس فیصد سے اوپر کی سطح پر موجود ہوگا. اس کے نتیجے میں تقریباً ستاسی ملین لوگ غربت کی زندگی گزاریں گے. یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام تجزیہ نگاری، کورونا وائرس پھیلنے سے پہلے کی ہے. 

اس عالمی وبا سے تیسری دنیا کے ممالک کی اقتصادی حالت شدید کمزور ہوگئی ہے. آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Ian Golding کا ماننا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا ہماری زندگی کی سب سے بڑی آفت ہوگی جس کا براہ راست اثر ترقی پذیر ممالک پہ ہوگا. خصوصی طور پروہاں رہنے والوں کی صحت اور معاشی حالت اثر انداز ہوگی.  


اس وقت ملک میں جہاں ایک طرف لاک ڈاؤن کو کھولنے کی بات ہو رہی ہے تو دوسری طرف اس سے ہونے والے نقصانات کا بھی ذکر ہے. ان سب کے بیچ آپ کو ملے گا سرمایہ دار نظام اور مادیت پسندی!

کورونا وائرس کے نتیجے میں بازار بند ہونے کے باعث تمام برانڈز اور ڈیزائنر نے آن لائن شاپنگ میں شدید تیزی پیدا کردی ہے. عام دنوں میں مارچ اپریل کے مہینے میں Spring/Summer Vol. 1 آیا کرتا تھا جو اس بار بھی آیا لیکن تیس سے چالیس فیصد چھوٹ کے ساتھ! جو پیسے عوام نے سیل کے نام پر وہاں بچاۓ، وہ اب عید کے جوڑوں پر خرچ ہونگے. 

پچیس ہزار، اٹھارہ ہزار، اور کم سے کم گیارہ ہزار کے عید کے جوڑے دیکھے گئے ہیں جو لوگ آرڈر بھی کر رہے ہیں، سلوا بھی رہے ہیں، اور یقیناً عید پر پہنے بھی جائیں گے. اب دیکھیں نا غریب ویسے بھی پچیس ہزار کا کیا کرے گا؟ وہ تو بمشکل روز کا آٹھ سو یا ہزار کما لیتا تھا. 

آپ لوگ امیروں سے جلتے ہیں. اب دیکھیں اگر آپ نے بھی کسی غریب کا حق مارا ہوتا، کم سے کم اجرت پر مزدوریاں، کاری گری کروائی ہوتی، تازہ کی جگہ جھوٹا کھانا دیا ہوتا، کم عمر سے گھر کا جھاڑو پوچھا لگوایا ہوتا تو آج آپ بھی پچیس چھوڑیں، پینتیس ہزار کا جوڑا پہنتے!  

دنیا نے بہت ترقی کرلی ہے اور ہمارے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم آپس میں جڑے ہوئے ہیں. ہمارے سیاسی، معاشی، مذہبی، یا فقہی اختلافات کرونا وائرس کی وبا کے آگے بے معنی ہیں. غربت جرائم کو جنم دیتی ہے. اس لئے بہتر ہوگا، ہم غربت کی نشونما کا حصّہ نہ بنیں اور اپنی دولت اور آمدن کو مساوات کے ساتھ استعمال کریں.......اس تئیس ہزار کے دوپٹے کو کسی کی موت اور بھوک کا پھندا بننے کا موقع نہ دیں. 


Mar 2, 2020

"آپ اور میں"


آپ کمال کرتے ہیں ہمیں آزمانے میں
ہم ہُنَر رکھتے ہیں سَر جھکانے میں

پابندیِ وقت سے، ہر وقت بُھلاتے رہے
جان جاتی رہی یوں، دِل جلانے میں

زندگی امتحان ہے گَر، اُستاد ہےعشق
مُنتظرِ سراب رکھا، دل کے تہہ خانے میں

دنیائے انقلاب کا شوق اب قلب میں نہیں
ہم سوچ چھوڑ آئے کسی مے خانے میں

وہ عادی قرینے کا، یہ دل فگار اس کا
سو گُما دیا خود کو اُس کے آشیانے میں

دل مضطر کو سمجھ بڑی دیر سے آئی
نہیں آتے یوں کسی اجنبی کے بہکانے میں




#بانوسازی 
٢٨ اگست، ٢٠١٩
رات ٢:٢٥







Jan 13, 2020

Unfettered Wings - by Sana Munir


Before 2020 began, I already had a list of books from Pakistani authors and one of them was Unfettered Wings by Sana Munir. Luckily, I got hold of this book before the new year and managed to finish it before 2020 could rise and shine.



Sana Munir is an accomplished writer and teacher from Lahore, Pakistan.

A collection of short stories, Unfettered Wings is Sana’s debut entrance in the literary world of writing. The book’s title cover says “extraordinary stories of ordinary women” which sets the tone for the reader. There are 10 short stories in there re-establishing the fact that it is not easy being a woman in a patriarchal society. All the ten stories are titled in the name of the female protagonist.

Unfettered Wings shed light on everyday women and the stories they carry behind their pretty faces.
The book begins with Farida and her journey from childhood to puberty during one of the bloodiest migrations of 1947. After Farida, the reader will meet several other women such as Maria, Beena, Habiba, and many more. My personal favorites are Summi and Nazia!

Sana Munir has an uncomplicated way to tell her stories.
She gives you a punch in the beginning and will maintain the momentum except on a few occasions. Sana’s way of storytelling will compel you to reflect around and realize these women are not limited to plain stories but walking & talking around us. The situational details and depth of the protagonist's character are a delight to reader's imagination. 

Unfettered Wings will take you on a flight from dusty lands of Kharan to the narrow lanes of Lahore. Everyday feminism is not limited to urban Pakistan in this book, but it is an equally shared burden by the rural women too.

I give it 4/5.

Jan 7, 2020

تصویر سے باتیں


میں نے جب اس کو پہلی بار دیکھا تویوں لگا دو آنکھیں چیرتی ہوئی بس مجھے تک رہی ہیں. اتنی تکتی آنکھیں تھیں کہ میں من ہی من مسکرا دیتی تھی. 

اس کے پس منظر میں پرانے لاہور کی دیوار کی جھلک تھی. وہی لاہور جس سے مجھے کچھ طبعی سا لگاؤ ہے، جس کی لال اینٹوں میں سرمئی شاموں کا عشق اوراور چاندنی راتوں کا لمس دفن ہے. مجھے لگا میرا دل ان آنکھوں میں نہیں، لاہور میں اٹکا ہے.



غلط فہمی تھی!
دل پس منظر میں نہیں، منظر میں اٹک گیا تھا.


#بانوسازی 


Nov 28, 2019

بایئں نظرئیے کا دایاں رخ - پروگریسو سٹوڈنٹ فیڈریشن

Originally publish here NayaDaur Urdu



"بقول غالب، میری وحشت تری شہرت ہی سہی!
 تو بس ان کی جو وحشت ہے نا، وہی ہماری شہرت ہے."

ایسا کہنا  ہے، ٢٣ سالہ  وقاص عالم کا، جو پروگریسو سٹوڈنٹس فیڈریشن-کراچی PrSF کے بنیادی رکن ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ٢٩ نومبر کو آنے والے "طلباء یکجہتی مارچ" کے منتظمین میں سے بھی ہیں. 




وقاص اپنی عمر میں کچے لیکن خیال کی پختگی میں ملکی سیاست کے بزرگوں کو مقابلہ دے سکتے ہیں. مرزا غالب اور کارل مارکس سے وابستگی انہیں وراثت میں ملی ہے. صاحب اکثر غالب کی شاعری فلسفے کے مختلف نظریات کی روشنی میں سمجھاتے ہوئے پائے جاتے ہیں. 

ساٹھ کی دہائی میں جب نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی تو کراچی شہر اور اس کے کالج اور جامعات کا ایک بہت بڑا کردار تھا.  یہی وجہ تھی کے جب یکجہتی مارچ کا اعلان ہوا تو کراچی سے طلباء و طالبات کا جھکاؤ دیکھا گیا اور لیفٹ-ونگ میں ایک تیزی کی لہر آئی.

وقاص بذات خود جامعہ کراچی سے  سیاسیات میں ماسٹرز کے آخری مراحل میں ہیں اور پچھلے ٥ سال سے لیفٹ - ونگ سے خود کو منسلک بتاتے ہیں. قومیت کے لحاظ سے وقاص کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے اور اس نسبت سے ان کو لگتا ہے کہ لیفٹ کا نظریہ ان کے حالات و واقعات کی بہتر عکاسی کرتا ہے.

"جب میں نے لیفٹ کا نظریہ پڑھنا شروع کیا تو سمجھیں سب کچھ پلٹ گیا اور مجھے لگا میں ایک خول میں رہتا ہوں.میری خوش قسمتی تھی کہ جب میں نے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا تب مجھے NSF کی معلومات ہوئیں اور میں نے ٢٠١٧ کے آخر تک ان کے ساتھ کام کیا."

پاکستان میں طلباء میں سیاسی تعلیم اور نظرئیے کا شدید فقدان ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ طلبات اپنی ڈگری حاصل کرنے کے لئے نصابی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں اور اداروں کی لائبریری خالی پڑی رہ جاتی ہیں. وقاص اپنی سیاسی معلومات اور تربیت کا سہرا کتابوں کو دیتے ہیں جن کے ساتھ انہوں نے ١٠ سال کی عمر سے وقت گزارنا شروع  کردیا تھا.

ضیاء الحق کے دور میں طلباء یونین پر پابندی لگی کیوںکہ تب اداروں اور حکومت کو طلباء کی طاقت کا اندازہ تھا جن کا مظاہرہ وہ پچھلی حکومتوں میں کر چکے تھے. بعد از پابندی، ملکی سیاست میں مختلف اتار چڑھاؤ آئے جس میں ایک تو خود ضیاء الحق کا قتل تھا. اس کے بعد بھی ملک میں تبدیلی در تبدیلی جنم لیتی رہی مگر طلباء یونین کا معاملہ کہیں دب گیا.

طلباء یونین اورسیاسی طلباء تنظیم کا ایک بنیادی فرق ہے الیکشن!
یونین میں مختلف تنظیمیں، فیڈریشن الیکشن کے زریعے منتخب کردہ نمائندگان طلباء کی آواز بنتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا تدریسسی اداروں اور طلباء میں مفاد ہوتا ہے. جب کے سیاسی طلباء تنظیم اپنی بنیادی تنظیم کا منشور لے کر آتی ہیں، وہ بھی بنا کسی الیکشن کے جو طاقت اور تشدد کا باعث بنتے ہیں.

طلباء یونین بھی ایک بنیادی حق ہے جس کی غیر موجودگی میں ملک بھر میں طلباء کے ساتھ ہونے والی کوئی بھی ناانصافی کسی اجتماعی چھتر کے نیچے نہیں آ سکتی ہے. واقعہ چاہے مشعال خان کے بہیمانہ قتل کا ہو یا  جامعہ بلوچستان میں طالبات کے ساتھ ہونے والی ہراسائی کا. یونین نہ ہونے کے باعث طلبہ و طالبات انفرادی احتجاج کا حق استعمال کرتے ہیں. ایسے میں طلباء یونین کی بحالی ہی وقت کی عین ضرورت ہے.

آپ کی نظر میں کسی کو بھی طلباء یونین کی بحالی کا مطالبہ کیوں کرنا چاہئے؟ اسکی بنیادی وجہ یا فوائد کیا ہو سکتے ہیں؟
"اس سوال کے جواب میں وقاص کا کہنا تھا، ہر شہری کا بنیادی اور آئینی حق ہے کہ وہ ریاست کے معاملات میں حصّہ لے، معلومات رکھے. ریاست اور قوم کا رشتہ حقوق اور فرائض کی بنیاد پر ہیں جس میں ریاست کے فرائض ہیں اور قوم کے حقوق ہوتے ہیں. اس رشتے کی ہم آہنگی ہی ہمیں ایک بہتر ملک دے سکتی ہے. 

دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ یا تو ہمارے پاس ڈکٹیٹر شپ ہے یا پھر موروثی سیاست جس کی موجودگی میں کسی بھی متبادل قیادت کا قیام عمل میں لانا ناممکن ہے. طلباء یونین مختلف طریقے جیسے ریڈنگ سرکل، سیمینار،آرٹ کے زریعے  طلباء کی سیاسی تربیت کرتی ہے جو مستقبل میں سیاسی قیادت کی بنیاد فراہم کرتی ہے."

ملک بھر میں جو ایک عام خیال پایا جاتا ہے وہ یہ کے طلباء تدریسی اداروں میں ہنگامہ آرائی، تشدد، یا قتل و غارت کی وجہ بنے ہیں. پابندی لگنے سے پہلے طلباء ایک مٹھی تھے لیکن جب بکھرے تو کچھ کنارہ کش ہوگئے اور کچھ نے سیاسی طلباء تنظیم کا رخ کیا. سیاسی تنظیموں سے سٹوڈنٹ ونگ رنگ، نسل، زبان کی بنیاد پر طاقت کا مظاہرہ کرتے تھے.  اس کے بر عکس طلباء یونین تمام تفریقات سے بالا تر ہے. 

ایسا نہیں ہے کے ماضی میں حکومتوں نے طلباء یونین پر بات نہیں کی، لیکن کسی نے بھی اس کیس کو سنجیدگی سے نہیں لڑا. ١٩٨٨ میں محترمہ بینظیر نے جب حکومت سنبھالی تو پابندی اٹھا دی لیکن ١٩٩٣ میں یہ پابندی پھر عائد  کر دی گئی. اس پابندی کا سب سے زیادہ فائدہ قدامت پسند یا مذہبی رجحان رکھنے والی جماعتوں کو ہوا جن کا٨٠ اور ٩٠ کی دہائی  بےدریغ استعمال ہوا.

اسی دوران APMSO نے بھی زور پکڑا اورIJT اسلامی جمعیت طلبہ کی مخالف بن گئی. یوں سلسلہ شروع ہوا  جامعہ کراچی کی  بدترین طلباء سیاست کا! 
جامعہ کے جھگڑے، قتل و غارت سیاسی بنیاد پر تھے جس سے عام طلباء کا کوئی تعلق نہیں تھا. ان وجوہات کی بناء پر طلبہ و طالبات نے سیاسی طور پر تدریسی اداروں میں کنارہ کشی اختیار کرلی.




ملک بھر میں سیاسی تنظیموں کے طلباء ونگ کا زور ٹوٹنے سے یونین کی بحالی کا معاملہ کچھ حد تک آسان ہوا ہے، خصوصی طور پر کراچی میں جہاں کالج اور جامعہ کراچی میں حالات قابو میں رکھنے کے لئے سندھ رینجرز کی اکثریت ہے. 


اس پابندی کی بحالی پر بلند و بالا آواز اٹھنے میں اتنے سال کیوں کیوں لگے؟
"وقاص کہتے ہیں کہ، نیشنل سٹوڈنٹ فیڈرشن نے ٢٠٠٧ پھر متحرک ہونا شروع کیا تھا جس کی بنیادی وجہ  صدر پرویز مشرف کے آخری دور میں پیدا ہونے والا معاشی بحران تھا. بین الاقوامی سطح پر بھی یہ زوال آ چکا تھا اورتب پاکستان میں لیفٹ-ونگ کو لگا کہ یہی موقع ہے.

اس طرح سے ایک بار پھرلیفٹ کی بنیاد رکھنا شروع کی گئی، جس میں مختلف اشکال پیدا ہوتی رہیں لیکن ایک بات جو قائم کردی گئی وہ یہ کہ، لیفٹ-ونگ نے اپنی جگہ بنانی شروع کردی تھی. ہم نے محاذ کھولنے کے بجائے مختلف تنظیموں کے ساتھ مذاکرات اور ملاقات کی کیوںکہ ہم خود کو ایک سیاسی تربیت گاہ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں.

تمام لیفٹ تنظیموں نے، کارکنان نے پچھلے چند سالوں میں بہت محنت کی ہے تاکہ ایک منظّم طریقے سے ہم باقاعدہ تحریک کا آغاز کر سکیں. فیض فیسٹیول، ریڈنگ سرکل، سٹریٹ تھیٹر وغیرہ منصوبہ بندی کے تحت ہوئے ہیں. اس سے ہم لوگوں میں آگاہی اور شعور اجاگر کرتے ہیں."

 کراچی شہر میں وقاص اور ان کے PrSF  کے ساتھی دن و رات آنے والے طلباء یکجہتی مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں. جامعہ کراچی میں مختلف جگہ پر طلباء و طالبات پر امن طریقے سے مظاہرے کی تیاری کرتے نظر آئیں گے. 

اس تمام عمل کی خوبصورتی یہ ہے کہ PrSF کراچی میں موجود ہر بڑی چھوٹی طلباء تنظیم کو دعوت عام دے رہی ہے. ضروری نہیں کے آپ اس وقت طالب علم ہی ہوں تو اس مارچ کا حصّہ بن سکتے ہیں. یہ مارچ تعلیم سے جڑے ہر مسلۓ کے لئے ہے. بڑھتی ہوئی فیس، گھٹتے ہوئے تعلیمی بجٹ، اور کالج جامعات میں ہونے والے واقعیات کی ترجمانی کرتا ہے. 





٢٩ نومبر کو ملک بھر میں ہونے والا یہ مارچ، کراچی میں بھی ریگل چوک سے پریس کلب تک ہوگا. یہ مارچ انتہائی منظم طریقے سے سرانجام ہوگا، یہاں تک کے PrSF نے نعرے بازی کی ٹیم الگ تشکیل دی ہے جب کے مختلف رضاکار بھی اس میں حصّہ لے کر مارچ کو منصوبہ بندی کے تحت چلائیں گے.

ان تمام باتوں کے با وجود سوشل میڈیا پر لیفٹ-ونگ کافی تنقید کا شکار ہے کیوںکہ جن ممالک نے اس نظرئیے پر چلنے کی کوشش کی، وہ ناکام رہے ہیں.  

"وقاص کہتے ہیں کہ ہر نظریہ ایک مرحلے سے گزرتا ہے. بلکل اسی طرح لیفٹ-ونگ ہے جو سرمایادار نظام کے نقاد ہیں اور رہیں گے. ہمارا یہ ماننا ہے کہ جو سرمایہ ملک میں آرہا ہے اور جہاں جا رہا ہے اسے صاف شفاف طریقے سے دکھایا جائے. ہمارا مقصد ترقی تو ہے مگر حقوق کی برابری کے ساتھ ہو. 

مارکسزم کو مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فکٹریاں ہیں یا سرمایہ داری بڑھ رہی ہے. مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کا فائدہ ایک مخصوص طبقے کی جیب میں چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے بنیادی حقوق کی پامالی ہوجاتی ہے. یہ نظریہ دراصل ریاستی بہبود کی بات کرتا ہے، مساوی حقوق کے لئے آواز اٹھاتا ہے."

جہاں تو خطّے میں کہیں ہرا رنگ اور کہیں کیسریا رنگ لہرا رہا ہے، وہیں "ایشیا سرخ ہے" کے نعرے ہوا میں بلند ہو رہے ہیں. پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ وہ اپنی ہی تاریخ سے نابلد ہے اور لیفٹ -ونگ کوصرف لیدر جیکٹ پہنا دی ہے. تنقید نگار لیدر جیکٹ سے بلند ہوتے نعرے اور حقوق کی مانگ کو نظر انداز کر رہے ہیں.

یہی وہ لمحہ فکریہ ہے کہ PrSF عام لوگوں یا مستقبل کے طالب علموں کو لیفٹ نظرئیے سے کیسے روشناس کرائے گی اور کیا لائحه عمل ہوگا. 


PrSF انوکھے طریقے اپنا رہی ہے کیوںکہ بڑے پیمانے پر لوگ کتابیں، مضامین وغیرہ نہیں پڑھتے ہیں. اس کے لئے قریبی مستقبل میں memes کی مدد سے لوگوں میں لیفٹ اور اس سے جڑے مختلف فلسفوں کی آگاہی دی جائے گی. یہ طریقہ پڑوسی ملک میں بھی اپنایا جارہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آسانی سے بات سمجھائی جا سکے. 

اس کے ساتھ ساتھ PrSF مختلف کمیونٹیز کی طرف بھی ہاتھ بڑھا رہی ہے تاکہ لوگوں کے اندر سے وہ خوف نکل سکے کہ ہم کسی ایک زبان یا رنگ یا نسل کے ساتھ ہیں. طلباء سیاسی تنظیم کی وجہ سے لڑکیوں کی سیاسی شرکت بہت کم ہوگئی تھی جبکہ PrSF مخالف صنف کو بھی شانہ بشانہ لے کر چل رہی ہے. 

وقاص کا ماننا ہے، سیاست بھی ایک سائنس ہے اور تجربوں کے بعد ہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے. تجربوں کی شروعات ہوچکی ہے اور چند سالوں بعد جا کر ہمیں ان کا پھل دیکھنے کو ملے گا.

کیا طلباء یونین صرف سرکاری کالج اور جامعات تک محدود ہے؟

ایسا بلکل نہیں ہے!
طلباء یونین کا تعلق ہر طالب علم اور ان سے جڑے مسائل سے ہوگا. یہی وجہ ہے کہ وقاص اوران کے ساتھ IBA, Habib University جیسی پرائیویٹ درسگاہوں میں بھی گئے ہیں اور طلباء کو متحرک کرنے کی کوشش کی ہے. طلباء کے مسائل صرف سرکاری کالج یا جامعات تک محدود نہیں ہیں. پرائیویٹ اداروں میں سنوائی کا کوئی خاص عمل نہیں ہے. 



بدقسمتی سے، نصاب کی کتابوں میں یا سیاسی تنظیمیں خود بھی لیفٹ - ونگ کی خدمات کو، کامیابیوں کو نہیں سراھتی ہیں. کوئی ذکر نہیں کرتا ہے کہ  پاکستان میں طلباء سیاست کتنی پرزور رہ چکی ہے اور ملکی سیاست میں ایک اہم کردار رکھتی تھی. یہی کردار پھر سے آواز اٹھا رہی ہیں، ظلم کے خلاف، جبر کے خلاف، اس امید سے ملک کے ہر کونے میں ان کی آواز کو سنا اور سمجھا جاۓ گا.